بازار زندگی میں جمے کیسے اپنا رنگ
ہیں مشتری کے طور نہ بیوپاریوں کے ڈھنگ
مدت سے پھر رہا ہوں خود اپنی تلاش میں
ہر لمحہ لڑ رہا ہوں خود اپنے خلاف جنگ
اک نام لوح ذہن سے مٹتا نہیں ہے کیوں
کیوں آخر اس پہ وقت چڑھاتا نہیں ہے رنگ
اس سے الگ بھی عمر تو کٹ ہی گئی مگر
ایک ایک پل کے بوجھ سے دکھتا ہے انگ انگ
شاخ نہال ذہن پہ خوابوں کے پھول تھے
ہوتا نہ اپنا دست جنوں کاش زیر سنگ
آواز کے حصار میں دل اب بھی قید ہے
مانگے ہے اب بھی پیرہن لفظ ہر امنگ
کچھ تجربہ بھی اب تو زمانے کا ہو گیا
کچھ دل کے بچپنے سے بھی ہم آ گئے ہیں تنگ
کوچہ بہ کوچہ پھرتے ہیں اب اس طرح بشر
بھٹکے ہے جیسے ہاتھ سے ٹوٹی ہوئی پتنگ
بشر نواز
No comments:
Post a Comment