Thursday, 1 October 2020

بازار زندگی میں جمے کیسے اپنا رنگ

 بازار زندگی میں جمے کیسے اپنا رنگ

ہیں مشتری کے طور نہ بیوپاریوں کے ڈھنگ

مدت سے پھر رہا ہوں خود اپنی تلاش میں

ہر لمحہ لڑ رہا ہوں خود اپنے خلاف جنگ

اک نام لوح ذہن سے مٹتا نہیں ہے کیوں

کیوں آخر اس پہ وقت چڑھاتا نہیں ہے رنگ

اس سے الگ بھی عمر تو کٹ ہی گئی مگر

ایک ایک پل کے بوجھ سے دکھتا ہے انگ انگ

شاخ نہال ذہن پہ خوابوں کے پھول تھے

ہوتا نہ اپنا دست جنوں کاش زیر سنگ

آواز کے حصار میں دل اب بھی قید ہے

مانگے ہے اب بھی پیرہن لفظ ہر امنگ

کچھ تجربہ بھی اب تو زمانے کا ہو گیا

کچھ دل کے بچپنے سے بھی ہم آ گئے ہیں تنگ

کوچہ بہ کوچہ پھرتے ہیں اب اس طرح بشر

بھٹکے ہے جیسے ہاتھ سے ٹوٹی ہوئی پتنگ


بشر نواز

No comments:

Post a Comment