Monday, 26 April 2021

بوڑھا مداری؛ ڈگڈگی کی تھاپ پر

 بوڑھا مداری


ڈُگڈگی کی تھاپ پر 

راستوں کی خاک پر

کبھی اس نگر

کبھی در بدر

پھرتا تھا وہ ڈگر ڈگر

چِلچلاتی گرمیاں

کپکپاتی سردیاں 

کبھی بارشوں کے درمیاں 

ہاتھوں میں رسی تھام کر

بندر کو اپنے ہانک کر 

کبھی خود بنا تماش گاہ

دکھائے کھیل جدا جدا

پھر یوں ہوا اک حادثہ

ذریعہ معاش بگڑ گیا 

بندر اس کا مر گیا 

نازل فاقوں کا قہر ہوا

پھر یوں ہوا اک سانحہ

ہائے وہ گاؤں کا بوڑھا مداری 

بھوک کے ہاتھوں قتل ہوا

بھوک کے ہاتھوں دفن ہوا


ثمرین افتخار

No comments:

Post a Comment