کنارِ آب کہیں میرے انتظار میں ہے
وہ ماہتاب کہیں میرے انتظار میں ہے
بتا رہی ہے یہ ترتیبِ حادثات مجھے
نیا عذاب کہیں میرے انتظار میں ہے
ابھی تو پاؤں تلے جلتی ریت ہے لیکن
کوئی سحاب کہیں میرے انتظار میں ہے
چھلکتی آنکھ ذرا دیر تخمِ اشک سنبھال
کہ فصلِ خواب کہیں میرے انتظار میں ہے
وہ انقلاب میں جس کا ہوں منتظر طاہر
وہ انقلاب کہیں میرے انتظار میں ہے
طاہر گل
No comments:
Post a Comment