ہو گئی عشق میں بدنام جوانی اپنی
بن گئی مرکز آلام جوانی اپنی
ماضی و حال ہیں محروم شراب و نغمہ
ہائے افسردہ و ناکام جوانی اپنی
آہ وہ صبح جو تھی صبح بہار ہستی
ہے اسی صبح کی اب شام جوانی اپنی
ایک تاریک فضا ایک گھٹا سا ماحول
کسی مفلس کا ہے انجام جوانی اپنی
انہیں راہوں میں انہیں مست و جواں گلیوں میں
لڑکھڑائی ہے بہر گام جوانی اپنی
ایک وہ دن تھا کہ میخانوں پہ ہم بھاری تھے
آج ہے دور تہِ جام جوانی اپنی
اکتفا کر کے کھنکتے ہوئے روز و شب پر
بن گئی زیست پر الزام جوانی اپنی
دن ہوا دھوپ چڑھی ڈھل گئے سائے الطاف
اب ہے اک بجھتی ہوئی شام جوانی اپنی
الطاف مشہدی
No comments:
Post a Comment