تم سے مل کر یہ لگا خود سے ملاقات ہوئی
آج یہ بابِ محبت میں نئی بات ہوئی
اب نہ پہلی سی توجہ نہ وہ پہلا سا سلوک
ختم اب جیسے ہر اک رسمِ مراعات ہوئی
چَھٹ گئے سر سے مِرے رنج و الم کے بادل
رات بھر آنکھوں سے اشکوں کی وہ برسات ہوئی
ہم مسافر تھے رہِ عشق کے یا خانہ بدوش
دن کہیں ہم نے گزارا تو کہیں رات ہوئی
ہم سے انسانوں کی اس عالمِ ہستی میں بھلا
کس کو معلوم ہے کیسے بسر اوقات ہوئی
آخری وقت میں وہ آئے ہیں پُرسش کو مِری
فصلِ جاں سُوکھ گئی اپنی تو برسات ہوئی
فوزیہ مل ہی گئی منزلِ مقصود ہمیں
شکر ہے گردشِ ایام کو بھی مات ہوئی
فوزیہ مغل
No comments:
Post a Comment