یادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے
خوابوں کو پلکوں پہ سجانا کتنا اچھا لگتا ہے
تیری طلب میں پتھر کھانا کتنا اچھا لگتا ہے
خود بھی رونا سب کو رُلانا کتنا اچھا لگتا ہے
ہم کو خبر ہے شہر میں اس کے سنگِ ملامت ملتے ہیں
پھر بھی اس کے شہر میں جانا کتنا اچھا لگتا ہے
جرمِ محبت کی تاریخیں ثبت ہیں جن کے دامن پر
ان لمحوں کو دل میں بسانا کتنا اچھا لگتا ہے
حال سے اپنے بیگانے ہیں مستقبل کی فکر نہیں
لوگو! یہ بچپن کا زمانا کتنا اچھا لگتا ہے
آج کا یہ اسلوبِ غزل بھی قدر کے قابل ہے لیکن
میر کا وہ انداز پرانا کتنا اچھا لگتا ہے
قدر شناس شعر و سخن ہوتے ہیں جہاں پر اے تابش
اس محفل میں شعر سنانا کتنا اچھا لگتا ہے
تابش مہدی
No comments:
Post a Comment