Monday 26 April 2021

حقیقتوں کو فسانہ نہیں بناتی میں

 حقیقتوں کو فسانہ نہیں بناتی میں

تمہارے خواب سے خود کو نہیں جگاتی میں

وہ فاختہ کی علامت اگر سمجھ جاتا

تو اس کے سامنے تلوار کیوں اٹھاتی میں

جناب، واقعی میں نے کہیں نہیں جانا

وگرنہ آپ کی گاڑی میں بیٹھ جاتی میں

پھر ایک دم مِرے پیروں میں گر گئے کچھ لوگ

قریب تھا کہ کوئی فیصلہ سناتی میں

خدا کا شکر کہ وہ راستے سے لوٹ گیا

اگر وہ آتا تو اس کو کہاں بٹھاتی میں

کسی خیال میں ہاتھوں سے چھوٹ جاتے ہیں

یہ جان بوجھ کے برتن نہیں گراتی میں

وہ دل ہو یا مِری گڑیا کی موت ہو جو ہو

ہمیشہ سوگ میں چُولہا نہیں جلاتی میں

میں مانتی ہوں مِرا فیصلہ غلط نکلا

تمہیں بتاؤ کہ پہلے کسے بچاتی میں

مِرا بدن کسی تتلی سے کم نہیں زہرا

تو مر نہ جاتی اگر تیرے ہاتھ آتی میں


زہرا قرار

زہرہ قرار

No comments:

Post a Comment