Monday, 26 April 2021

خلا اندر خلا ہے

 خلا


خلا اندر خلا ہے

بظاہر جو نظر آتی نہیں ہے

وہیں گمنام سیاک شاہراہ ہے

جہاں بھٹکتے ہوئے چند خواب ہیں اور

بے اعتباری کا اک گھنا جنگل بھی ہے

وہیں شاید کہیں پر کھو گیا ہے

گھنے جنگل سے اب لاؤں

بھلا کیسے؟

بتاؤ تو بھلا ممکن ہو کیسے؟

نفی ہوتی ہوئی اک ذات کا

اثبات

یعنی یس

بظاہر جو کہیں پر کھو گیا ہے

میرے اندر ہی کہیں پر رہ گیا ہے

آدھے سچ، ادھورے خواب کا موسم


زعیم مشتاق

No comments:

Post a Comment