دیکھ کر اس کی دلبرانہ چُپ
اوڑھ لی ہم نے عاجزانہ چپ
رات دن لفظ تھُوکنے والا
کیوں مِری بار تھا زمانہ چپ
گفتگو چیختی تھی آنکھوں میں
اور مابین ظالمانہ چپ
کہنے والے کو مار دیتی ہے
سننے والے کی قاتلانہ چپ
عشق کب سوچتا ہے دنیا کی
کس کو درکار عاقلانہ چپ
تنہا لگتا ہے سوچتا کمرہ
ٹُوٹ پڑتی ہے وحشیانہ چپ
کچھ حقائق اسے بتانے ہیں
کچھ پہ رکھنی ہے ماہرانہ چپ
اس نے محفل میں پھینک دی بھر کر
زیب و زینت کی عامیانہ چپ
جانتے ہیں تِرے عزائم اور
زیرِ مُسکان ناصحانہ چپ
صائمہ اسحاق
No comments:
Post a Comment