Monday 26 April 2021

آندھی کو گلی میں جگ بیتا

 آندھی کو گلی میں جگ بیتا

وہ دیپک آج بھی جلتا ہے

نکلے تھے گھر سے شام ڈھلے

ہم پل سے گُگ کی اور چلے

جو پھول کھلے تھے رستوں میں

لگتے ہیں بھلے گلدستوں میں

گلیوں میں جن کا چرچا ہے

وہ دیس مِرا، وہ رُت سپنا

ہے جیون جل سے ہرا بھرا

ہر پھول امر ہر بار امر

من آنگن کی برسات امر

وہ جاگی آنکھ نہیں سوئی

وہ نیند بھی ایک سندیسہ ہے

وہ جوتی آج بھی جوتی ہے

پھر لے کر من میں بھور چلیں

وہ سورج آج بھی سورج ہے

آؤ، پھر اس کی اور چلیں


نگار صہبائی

No comments:

Post a Comment