آندھی کو گلی میں جگ بیتا
وہ دیپک آج بھی جلتا ہے
نکلے تھے گھر سے شام ڈھلے
ہم پل سے گُگ کی اور چلے
جو پھول کھلے تھے رستوں میں
لگتے ہیں بھلے گلدستوں میں
گلیوں میں جن کا چرچا ہے
وہ دیس مِرا، وہ رُت سپنا
ہے جیون جل سے ہرا بھرا
ہر پھول امر ہر بار امر
من آنگن کی برسات امر
وہ جاگی آنکھ نہیں سوئی
وہ نیند بھی ایک سندیسہ ہے
وہ جوتی آج بھی جوتی ہے
پھر لے کر من میں بھور چلیں
وہ سورج آج بھی سورج ہے
آؤ، پھر اس کی اور چلیں
نگار صہبائی
No comments:
Post a Comment