دشتِ وحشت میں کوئی پھُول کھِلانا ہو گا
بامِ امید کو اب پھر سے سجانا ہو گا
اب تِرا وصل یہاں میرے مقدر میں نہیں
تجھ کو پانے کے لیے جان سے جانا ہو گا
اس نے اب کے میرا کردار بنایا ہے ہدف
مال و زر بیچ کے عصمت کو بچانا ہو گا
دعویٰ کرتا ہے بہت ہم سے محبت کا مگر
یہ بھی کہتا ہے زمانے سے چھُپانا ہو گا
وہ جو لکھی تھی کبھی خونِ جگر سے ہم نے
اس عبارت کو صحیفے سے مٹانا ہو گا
اک نئی جنگ سے اب خود کو بچانے کے لیے
ہمیں ہاتھوں میں کتابوں کو اُٹھانا ہو گا
ہم نے دل چیر کے جب زخم دِکھایا ان کو
ہنس کے وہ بولے کہ یہ گھاؤ پرانا ہو گا
حق و باطل کی لڑائی ہے فرح تم کو بھی
اب کفن باندھ کے میدان میں آنا ہو گا
فرح کامران
No comments:
Post a Comment