شام اترتی رہی
چپ کھڑی سامنے والی دیوار پر
سانولے سرد ہاتھوں سے
رخنوں میں دبکی حرارت کھرچتی
سبک، سرمئی پیرہن کو لیے
کیاریوں کے شفق رنگ منظر نگلتی
کھُلے آنگنوں اور ستونوں، درختوں
دریچوں پہ
گہرے سیہ رنگ خوابوں کی دستک لیے
جھانکتی، تاکتی بند دروازوں، درزوں سے ہوتی ہوئی
میز پر چائے کے خالی مگ سے اُلجھتی، سرکتی
کسی گم شدہ سوچ کے زرد مرغولوں کو
تھپتھپاتی ہوئی
شام اُترتی رہی
ایک بے جان چہرے پہ
خالی نگاہوں کے خاکوں کو چھوتی، لرزتی
کسی خوف کی ان چھوئی ساعتوں سے
ذرا کانپتی، کپکپاتی
بہت دیر سے بند دھڑکن پہ بے سُود
آہٹ کو دھرتی ہوئی
شام اُترتی رہی
گلناز کوثر
No comments:
Post a Comment