Tuesday, 27 April 2021

بندگی کا صلہ نہیں ملتا

 بندگی کا صلہ نہیں ملتا

تم نہ ملتے خدا نہیں ملتا

چاٹ لیتی ہے استخواں آتش

راکھ کو ذائقہ نہیں ملتا

پوچھ تو اپنے خالی ہاتھوں سے

کیا جہاں میں بھلا نہیں ملتا

خواب بھی انتقام لیتے ہیں

نیند کا در کھُلا نہیں ملتا

عشق قیدی قفس سے کرتا ہے

جب کوئی آشنا نہیں ملتا

اک تِرے اعتبار کا لمحہ

لاکھ سمجھیں ملا، نہیں ملتا

میں تو میں ہوں مِرا تصور بھی

خود پرستوں سے جا، نہیں ملتا

موج ساحل پہ سر پٹکتی ہے

تشنگی کا سِرا نہیں ملتا

کیا غرض انتظارِ پیہم کو

یار ملتا ہے یا، نہیں ملتا


نینا عادل

No comments:

Post a Comment