بندگی کا صلہ نہیں ملتا
تم نہ ملتے خدا نہیں ملتا
چاٹ لیتی ہے استخواں آتش
راکھ کو ذائقہ نہیں ملتا
پوچھ تو اپنے خالی ہاتھوں سے
کیا جہاں میں بھلا نہیں ملتا
خواب بھی انتقام لیتے ہیں
نیند کا در کھُلا نہیں ملتا
عشق قیدی قفس سے کرتا ہے
جب کوئی آشنا نہیں ملتا
اک تِرے اعتبار کا لمحہ
لاکھ سمجھیں ملا، نہیں ملتا
میں تو میں ہوں مِرا تصور بھی
خود پرستوں سے جا، نہیں ملتا
موج ساحل پہ سر پٹکتی ہے
تشنگی کا سِرا نہیں ملتا
کیا غرض انتظارِ پیہم کو
یار ملتا ہے یا، نہیں ملتا
نینا عادل
No comments:
Post a Comment