ہے مستقل یہی احساس، کچھ کمی سی ہے
تلاش میں ہے نظر دل میں بےکلی سی ہے
کسی بھی کام میں لگتا نہیں ہے دل میرا
بڑے دنوں سے طبیعت بجھی بجھی سی ہے
بڑی عجیب اداسی ہے مسکراتا ہوں
جو آج کل مِری حالت ہے شاعری سی ہے
گزر رہے ہیں شب و روز بے سبب میرے
یہ زندگی تو نہیں صرف زندگی سی ہے
تھکی تو ایک محبت نے موند لی آنکھیں
ہر ایک نیند سے اب میری دشمنی سی ہے
تِرے بغیر کہاں ہے سکون کیا آرام
کہیں رہوں مِری تکلیف بے گھری سی ہے
نہیں وہ شمع محبت رہی تو پھر عاصم
یہ کس دعا سے مِرے گھر میں روشنی سی ہے
صباحت عاصم واسطی
No comments:
Post a Comment