طاقِ جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دئیے
اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دئیے
کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو
کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دئیے
وہی مقابل بھی تھا میرا سنگِ راہ بھی تھا
جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دئیے
زرد رُتوں کی گرد نے حال چھُپایا تھا گھر کا
اک بارش نے دیواروں کے زخم اُجال دئیے
دھات کھری تھی جذبوں کی لیکن اُجرت سے قبل
قسمت کی ٹکسال نے سکے کھوٹے ڈھال دئیے
تازہ رُت کے استقبال کی خاطر شاخوں نے
پیڑ کے سارے موسم دیدہ پات اُچھال دئیے
جن کو پڑھ کر پہلے ہنستی تھی پھر روتی تھی
آخر اک دن میں نے وہ خط آگ میں ڈال دئیے
جن میں تھے مذکور حوالے تیری چاہت کے
نور کتاب زیست سے وہ اوراق نکال دئیے
شہناز نور
No comments:
Post a Comment