خرابہ اور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ
دیار دل پہ آتے ہیں عذاب آہستہ آہستہ
سوال وحشت جاں کے جواب آہستہ آہستہ
بت کافر اٹھاتے ہیں نقاب آہستہ آہستہ
کوئی دستِ حنائی مؤقلم سے بھرتا جاتا ہے
نگارِ شام میں رنگ شراب، آہستہ آہستہ
بگولہ ابتدائے شوق میں محمل دکھائی دے
نظر آتے ہیں صحرا میں سراب آہستہ آہستہ
بہت بوسیدہ یادوں کے ورق جھڑنے بھی لگتے ہیں
پلٹ عمرِ گزشتہ کی کتاب آہستہ آہستہ
سراغِ نقشِ پا مٹتے چلے جاتے ہیں صحرا میں
اُبھرتا ہے سفر میں اضطراب آہستہ آہستہ
کمالِ شوق نظارہ میں عریاں ہوتا جاتا ہے
سرِ بامِ فلک وہ ماہتاب آہستہ آہستہ
کبھی خوشبو کبھی نغمہ کبھی رنگین پیراہن
ندیم اُگتی ہے یوں ہی فصلِ خواب آہستہ آہستہ
کامران ندیم
No comments:
Post a Comment