ایک نظم کھو گئی
کون تلاش کرے گا
میری نظم
کہاں ڈھونڈوں اس کو
کیسے آتی ہے ایک نظم
اس بے فرصتی میں
اس ہنگام میں
جب صبح سے رات تک آٹے دال کا بھاؤ
سرہانے کو سخت کرتا رہے
کہاں گئی وہ نظم
میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شل ہو چکی ہوں
کس سے پوچھوں
وہ کیا مجھ سے کھلواڑ کر رہی ہے
کسی اندھیرے میں تو نہیں چلی گئی
مجھ سے چھپنے کے لیے
اندھیرے میں چھپنے کے چکر میں دور کسی کھائی میں اتر گئی ہو
یا ان گھاٹیوں میں جو اپنا کوئی نشان نہیں رکھتیں
مجھے کیوں یقین ہے ایک دن وہ واپس آ جائے گی
ایک صبح وہ میرے ٹیرس کی دیوار پر بیٹھی مجھے ملے گی
یا کسی پھول میں آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی
پہلے تو میں اس کو ڈراؤں گی
اگر وہ نہیں آتی
تو میں ایک اور نظم لکھ لیتی
ایک اور
پھر ایک اور
میں اس کے ذائقے کو بھی بھُلا دیتی
جب لوگ مجھ سے پوچھتے
کیا نام رکھا تھا تم نے اس کا
تو میں بھی اس کا نام بھُلا دیتی
اس کو کیا پتہ جب کوئی کھو جاتا ہے
تو ڈھونڈنے والا خون کے آنسو روتا ہے
عذرا عباس
No comments:
Post a Comment