Monday, 26 April 2021

ایک نظم کھو گئی کون تلاش کرے گا

 ایک نظم کھو گئی

کون تلاش کرے گا

میری نظم

کہاں ڈھونڈوں اس کو

کیسے آتی ہے ایک نظم

اس بے فرصتی میں

اس ہنگام میں

جب صبح سے رات تک آٹے دال کا بھاؤ

سرہانے کو سخت کرتا رہے

کہاں گئی وہ نظم

میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شل ہو چکی ہوں

کس سے پوچھوں

وہ کیا مجھ سے کھلواڑ کر رہی ہے

کسی اندھیرے میں تو نہیں چلی گئی

مجھ سے چھپنے کے لیے

اندھیرے میں چھپنے کے چکر میں دور کسی کھائی میں اتر گئی ہو

یا ان گھاٹیوں میں جو اپنا کوئی نشان نہیں رکھتیں

مجھے کیوں یقین ہے ایک دن وہ واپس آ جائے گی

ایک صبح وہ میرے ٹیرس کی دیوار پر بیٹھی مجھے ملے گی

یا کسی پھول میں آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی

پہلے تو میں اس کو ڈراؤں گی

اگر وہ نہیں آتی

تو میں ایک اور نظم لکھ لیتی

ایک اور

پھر ایک اور

میں اس کے ذائقے کو بھی بھُلا دیتی

جب لوگ مجھ سے پوچھتے

کیا نام رکھا تھا تم نے اس کا

تو میں بھی اس کا نام بھُلا دیتی

اس کو کیا پتہ جب کوئی کھو جاتا ہے

تو ڈھونڈنے والا خون کے آنسو روتا ہے


عذرا عباس

No comments:

Post a Comment