بھرم
سڑک صاف سیدھی اور دھوپ ہے
دوپہر کا سفر
اک اکیلی سڑک پیر تسمہ بپا یوں چلی جا رہی ہے
کہ جیسے چلی ہی نہیں
ایستادہ ہے بس
جیسے بے سر کے دھڑ اور پاؤں کے آدمی
آدمی تم بھی ہو، آدمی میں بھی ہوں
اور تم نے بھرم رکھ لیا
تم نے اچھا کیا میری آنکھوں میں جھانکا نہیں
ورنہ ڈر جاتے تم
گہرے پانی کے نیچے بھی پانی تھا، اوپر بھی پانی تھا پانی میں
ایک سرخ پھول، بے جگہ
بے وجہ کھِل گیا یونہی
نسرین انجم بھٹی
No comments:
Post a Comment