عالم تِرے کوچہ کا کچھ اور رہا ہوتا
در پر نہ تِرے پہرہ ایسا جو لگا ہوتا
یہ دردِ محبت ہی اب کاش سوا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
گر قیس نہ یوں مجنوں لیلی' کا ہوا ہوتا
یہ قصۂ الفت پھر کچھ اور جدا ہوتا
ہم اپنی جگہ ہوتے وہ اپنی جگہ ہوتا
پھر تو کوئی ہنگامہ ایسا نہ بپا ہوتا
رہرو وہ اچانک جو ہم کو نہ ملا ہوتا
رستہ بھی بہ آسانی اپنا نہ کٹا ہوتا
الفت کا سفینہ یہ کب پار لگا ہوتا
گرداب میں شکوؤں کے ہر دم جو گھِرا ہوتا
پہلے ہی نہ جانے ہم کتنے ہی قریں ہوتے
حائل جو تکلّف کا پردہ نہ رہا ہوتا
ہچکی تو کبھی آتی پردیس میں مجھ کو بھی
بھولے سے کبھی تم نے گر یاد کیا ہوتا
آتے نہ مصائب کی یوں زد میں رضیہ ہم
گر حکمِ خداوندی پر دل یہ چلا ہوتا
رضیہ کاظمی
No comments:
Post a Comment