آنکھیں اداس ہو گئیں منظر اداس ہو گیا
تُو کیا گیا کہ شہر میں ہر گھر اداس ہو گیا
پائے شکستگی ذرا ہمت تو کر کہ یار کی
دہلیز پر پڑ اتھا جو پتھر اداس ہو گیا
لشکر میں چھیڑ تو دیا ہم نے فسانۂ وفا
رستے اداس ہو گئے، رہبر اداس ہو گیا
تیری کمی نگل گئی چہرے کی آب و تاب کو
بجھ سا گیا ہے آئینہ، بستر اداس ہو گیا
مجذوب ثاقب
No comments:
Post a Comment