دلِ ناداں یقیں کر لے محبت اب نہیں ہو گی
قیامت آ چکی ہم پر، قیامت اب نہیں ہو گی
جسے اپنا بنایا تھا جو رگ رگ میں سمایا تھا
بہت بے درد نکلا وہ، سو چاہت اب نہیں ہو گی
مِرا بے سُود ہے جینا جہانِ درد میں تنہا
مجھے سانسوں کی اے ہمدم ضرورت اب نہیں ہو گی
مجازی عشق میں کھو کر حقیقت بھول بیٹھا تھا
خدایا! درگزر کرنا شکایت اب نہیں ہو گی
مذاہب کے تصادم نے خدا تقسیم کر ڈالا
کہیں مندر، کہیں گرجا، عبادت اب نہیں ہو گی
بیاں ایسے نہ کر ماجد زمانے کی حقیقت کو
وگرنہ جان کی تجھ سے حفاظت اب نہیں ہو گی
ماجد جہانگیر مرزا
No comments:
Post a Comment