Tuesday, 27 April 2021

روح گھائل ہو گئی اور جسم بھی شل ہو گیا

 روح گھائل ہو گئی اور جسم بھی شل ہو گیا

دائرہ⭕ میری مسافت کا مکمل ہو گیا

کون جانے عقل کی اس تک رسائی ہی نہیں

لوگ دیوانے کو سمجھے ہیں کہ پاگل ہو گیا

وہ وداعِ وصل کا لمحہ بھی کیا لمحہ تھا جو

پھیل کر جگ میں ڈھلا، سمٹا تو اک پل ہو گیا

زندگی کے دام لگتے ہیں سرِ بازارِ موت

ہنستا بستا شہر مثلِ صحنِ مقتل ہو گیا

دید کا در باز تھا، سویا رہا وہ بد نصیب

آنکھ جب کھولی تو دروازہ مقفّل ہو گیا

موت کا احسان مر کر بھی نہ حیدر بھُولنا

زیست ہی کا مسئلہ تھا آج وہ حل ہو گیا


حیدر گیلانی

No comments:

Post a Comment