آگ لگا کر گھر کو جب خود گھر والا انجان بنے
اے لوگو پھر تم ہی بتاؤ کیوں نہ وہ گھر شمشان بنے
آج امیدوں کے مرگھٹ پر اڑتے ہیں آہوں کے گِدھ
جانے اسی مرگھٹ میں کل کن نغموں کا ایوان بنے
اس کے چہرے کی ریکھائیں میں بھی تو اک بار پڑھوں
کاش کبھی تو خوابوں ہی میں وہ میرا مہمان بنے
انگاروں پر ننگے پاؤں تنہا کب تک دوڑو گے
ساتھ میں سایوں کو بھی لے لو تاکہ سفر آسان بنے
اطہر کل تک سوچ میں تھا انساں کہ بنے انسان ذرا
آج مگر اس فکر میں ہے اب کیسے وہ بھگوان بنے
اطہر عزیز
No comments:
Post a Comment