Monday, 26 April 2021

آگ لگا کر گھر کو جب خود گھر والا انجان بنے

 آگ لگا کر گھر کو جب خود گھر والا انجان بنے

اے لوگو پھر تم ہی بتاؤ کیوں نہ وہ گھر شمشان بنے

آج امیدوں کے مرگھٹ پر اڑتے ہیں آہوں کے گِدھ

جانے اسی مرگھٹ میں کل کن نغموں کا ایوان بنے

اس کے چہرے کی ریکھائیں میں بھی تو اک بار پڑھوں

کاش کبھی تو خوابوں ہی میں وہ میرا مہمان بنے

انگاروں پر ننگے پاؤں تنہا کب تک دوڑو گے

ساتھ میں سایوں کو بھی لے لو تاکہ سفر آسان بنے

اطہر کل تک سوچ میں تھا انساں کہ بنے انسان ذرا

آج مگر اس فکر میں ہے اب کیسے وہ بھگوان بنے


اطہر عزیز

No comments:

Post a Comment