Monday, 26 April 2021

دل آشنا رفیق پیارا کوئی نہ تھا

 دل آشنا، رفیق، پیارا، کوئی نہ تھا

ہم ہر کسی کے اور ہمارا کوئی نہ تھا

تا عمر دوسروں کا سہارا بنی رہی

میں ٹوٹ کر گِری تو سہارا کوئی نہ تھا

کاٹی ہے میں نے یونہی اندھیروں میں زندگی

قسمت کے آسماں پہ ستارا کوئی نہ تھا

اندازہ میرے غم کا بھی ہوتا کسی کو کیا

میری طرح تو عشق میں ہارا کوئی نہ تھا

میں راہِ زندگی کی مسافر تو ہوں، مگر

میں نے پلٹ کے جب بھی پکارا، کوئی نہ تھا

ناہید میں تو رنج و الم کی وہ جھیل ہوں

جس میں مسرتوں کا شکارا کوئی نہ تھا


ناہید کیانی

No comments:

Post a Comment