پابندِ وفا
ہم کہ دلدادۂ الفت ہیں
وفا کے قائل
ہم نے ہر حال میں رشتوں کا بھرم رکھا ہے
ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے لیے
اک نظر پیار کی کافی ہے
عمر بھر کے لیے
پھر اس کے بعد کوئی آرزو رہے نہ رہے
کسی بھی موڑ پہ ہم سے کوئی ملے نہ ملے
اس ایک پَل کے تصوّر میں
عمر کٹتی ہے
وه ایک پَل جو بہت ریشمی احساس لیے
باندھ کر جا بھی چکا رشتۂ گمنام کے ساتھ
پھیل جاتی ہے رگ و پے میں عجب سرشاری
جب مِرے ذہن کے پردوں پہ اُبھر آتے ہیں
ان گِنت پَل کہ جو وابستہ ہوئے
میری ہر صبحِ درخشاں سے
مِری شام کے ساتھ
ہر قدم پر میرے پاؤں سے لپٹ جاتی ہے
کسی چاہت میں ڈھلی
ایک سنہری زنجیر
ہم کہ دلدادهٔ الفت ہیں
وفا کے قائل
ہم اسیرانِ محبت ہیں رہا کیسے ہوں؟
بشریٰ خلیل
No comments:
Post a Comment