Tuesday 27 April 2021

چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے

 چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے 

رستہ نہیں منزل نہیں اچھا ہوا تو ہے 

تعبیر تک آتے ہی تجھے چھُونا پڑے گا 

لگتا ہے کہ ہر خواب میں دیکھا ہوا تو ہے 

مجھ جسم کی مٹی پہ تِرے نقشِ کفِ پا 

اور میں بھی بڑا خوش کہ ارے کیا ہوا تو ہے 

میں یوں ہی نہیں اپنی حفاظت میں لگا ہوں 

مجھ میں کہیں لگتا ہے کہ رکھا ہوا تو ہے 

وہ نور ہو آنسو ہو کہ خوابوں کی دھنک ہو 

جو کچھ بھی ان آنکھوں میں اکٹھا ہوا تو ہے 

اس گھر میں نہ ہو کر بھی فقط تُو ہی رہے گا 

دیوار و در جاں میں سمایا ہوا تو ہے 


ابھیشیک شکلا

No comments:

Post a Comment