تیری یاد کا ہر پل، وجہِ شادمانی ہے
صبح بھی سہانی تھی شام بھی سہانی ہے
دوسروں سے برہم ہوں، خود سے بد گمانی ہے
کیا یہی محبت کا عالمِ جوانی ہے
یہ خلوص کے دعوے، مصلحت ہیں دھوکا ہیں
صرف جام بدلے ہیں، مئے وہی پرانی ہے
بھیگ تو گیا دامن میرے اشکِ پیہم سے
خود ہی فیصلہ کر لو آگ ہے کہ پانی ہے
زرد زرد پتوں کو شاخ ہی پہ رہنے دو
لوٹتی بہاروں کی آخری نشانی ہے
عمر بھر کے خوابوں نے ہونٹ سی لیے اپنے
اب تو صرف آنکھوں کو شوق ترجمانی ہے
شکوۂ جفا آخر اپنے لب پہ کیوں آئے
اس نے یاد تو رکھا یہ بھی مہربانی ہے
شگفتہ یاسمین
No comments:
Post a Comment