Sunday, 23 January 2022

ایسا جینا بھی کیا ہے مر مر کے

ایسا جینا بھی کیا ہے مر مر کے

وہ جہاں بھی رہے رہے ڈر کے

اب کسی طرح دل نہیں لگتا

گھر میں سب کچھ تو ہے سوا گھر کے

سانس کا بوجھ اب نہیں اٹھتا

جسم خالی ہے دھڑ بنا سر کے

اس کو جانے کی کتنی جلدی تھی

بات ساری کہی پہ کم کر کے

جلوہ دیکھا لہو کا اس نے جب

ہوش ہی اڑ گئے تھے خنجر کے

ریت و ساحل میں صلح پھر نہ ہوئی

تھک گئی موج التجا کر کے

زخم کچھ اس طرح سے ہنستے ہیں

اشک بہنے لگے ہیں نشتر کے

راس آیا غم شناسائی

وار پہچان کے تھے خنجر کے

اس کو ناراض ہونا آتا ہے؟

واری جاؤں میں ایسے تیور کے


پوجا بھاٹیہ

No comments:

Post a Comment