Sunday, 23 January 2022

لاکھ کوشش سے اداسی نہ چھپا پاتا ہوں

 لاکھ کوشش سے اداسی نہ چھپا پاتا ہوں

اپنے لہجے سے میں پہچان لیا جاتا ہوں

لے تو آتی ہے، دکھائی نہیں دیتا کوئی

بانسُری سُن کے تعاقب میں نکل آتا ہوں

یوں تو کر لیتا ہوں میں اس سے ہزاروں باتیں

ہے کوئی بات جسے کرنے سے گھبراتا ہوں

میں کہیں دور نکل جاؤں اگر ساتھ اپنے

اس سے ملنے کے لیے خود کو بُلا لاتا ہوں

اس اذیت سے مِری جان کو خطرہ ہے مگر

اب محبت میں کوئی تجربہ دہراتا ہوں

لفظ جتنے بھی ہیں اچھے اسے منسوب کروں

پھول ہر رنگ کا گجرے میں سجا لاتا ہوں

وہ کسی اور پہ ہوتا ہے خفا تو شاہد

میں کسی بات کے خدشے سے لرز جاتا ہوں


شاہد اشرف

No comments:

Post a Comment