وحشت نہیں رہی تو سکوں بھی نہیں رہا
اب زندگی میں کوئی جنوں بھی نہیں رہا
میرے بھی دل کا حال فسردہ ہے اِن دنوں
اور اُس کی آنکھ میں وہ فسوں بھی نہیں رہا
دھڑکے ترے لیے یہ بھی ممکن نہیں ھے دل
اب تو مِری رگوں میں وہ خوں بھی نہیں رہا
بیٹھا ہوا ہے دور تو بیٹھا رہے میاں
میرا وہ شخص پہلے سا یوں بھی نہیں رہا
مجھ کوجو غم ملے ہیں سو ہوں مالا مال میں
اب میرا حال ویسے زبوں بھی نہیں رہا
جو پیڑ منزلوں کے نشاں کا پتہ بنا
کٹ کے گرا تو اچھا شگوں بھی نہیں رہا
سر پر یہ گر نہ جائے دراڑیں عجیب ہیں
اب چھت کے درمیاں تو ستوں بھی نہیں رہا
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment