Sunday, 23 January 2022

ترے بہتے ہوئے اشکوں کی سفارش تھی بہت

 تِرے بہتے ہوئے اشکوں کی سفارش تھی بہت

ہاں مِری جانِ غزل رات یہ بارش تھی بہت

زندگی چین سے کب گزری کسی بھی صورت

ہر قدم پر مِرے رستے میں جو سازش تھی بہت

شہر کا شہر ہی اک دوجے کا دشمن نکلا

دل نہ مل پائے کسی کے بھی کہ رنجش تھی بہت

آج محفل میں ہر اک شخص کا چہرہ تھا نیا

پارسا لوگ نہ تھے پھر بھی نمائش تھی بہت

سر سے ٹل پایا نہ اپنے یہ خزاں رُت کا عذاب

پھول کب کھل سکے خوشیوں کے گو کوشش تھی بہت

اب زمانے میں بھلا کس پہ بھروسہ کیجے

سچ بھی تو جھوٹ ہی نکلا کہ واں پالش تھی بہت

عکس اس دور میں ہر شخص ہے خود اپنا امیں

کوئی بن پایا نہ اپنا مِری خواہش تھی بہت


لبنیٰ عکس

No comments:

Post a Comment