اس سے پہلے کہ نیا راستہ ہموار کروں
چاہتا ہوں کہ تِری راہ کو دشوار کروں
مجھ میں اجداد کی غیرت کی رمق باقی ہے
شرم آئے گی تِری پشت پہ گر وار کروں
گو، تصور بھی گراں بار انا پر ہے مِری
دل یہ کہتا ہے تِرے سامنے اقرار کروں
ذہن آمادہ نہیں، دل تو بہت کرتا ہے
روٹھنے والے کو آمادۂ گفتار کروں
زور چلتا نہیں کچھ، زود خفا کے آگے
کیسے اس حور شمائل کو میں گلنار کروں
گنہ آلود و سیہ ہے مِرا دامن مولیٰ
کیسے رحمت کا، تِری خود کو سزا وار کروں
ہے اساطیر سے محو آج، سبا کی ملکہ
آ، تجھے ملک خدا داد کا مختار کروں
جب ہے مفقود، تبسم ہی لبوں سے اس کے
کیسے پھر خواہشِ تعبیرِ سمن بار کروں
دل بضد ہے کہ مقابل رہے تُو بھی اور میں
"آئینہ سامنے رکھ کر تِرا دیدار کروں"
خواجہ ثقلین
No comments:
Post a Comment