Sunday, 23 January 2022

کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر

 کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر

زندگی تجھ سے تعلق کے بہانے تھے ادھر

کیا عجب خواب کے خوشبو کے ٹھکانے تھے ادھر

اب تو کچھ یاد نہیں کون زمانے تھے ادھر

یہ نہیں یاد کہ وہ باغ تھا کس کوچے میں

اس قدر یاد ہے کچھ پھول کھلانے تھے ادھر

ایک بستی تھی ہوئی وقت کے اندوہ میں گم

چاہنے والے بہت اپنے پرانے تھے ادھر

ہم ادھر آئے تو وہ عرض کرم چھوٹے گی

مملکت عشق کی تھی غم کے خزانے تھے ادھر


عین تابش

No comments:

Post a Comment