Monday, 24 January 2022

کوئی شکوہ ہے تو اس باد سبکسار کے ساتھ

 کوئی شکوہ ہے تو اس بادِ سُبکسار کے ساتھ

لے اُڑی جو تِرا آنچل مِری دستار کے ساتھ

تُو کہ وہ جس پہ سبک سیر ہوائیں قرباں

کوئی چل پائے کہاں تک تِری رفتار کے ساتھ

جیسے ٹوٹا مِرا پِندار یہ دل جانتا ہے

کاش ایسا نہ کبھی ہو مِرے غمخوار کے ساتھ

وہ جو خوش ہیں مِری رُسوائی کو نغمہ کر کے

خُوب ناچیں تِری پازیب کی جھنکار کے ساتھ

دلِ دشمن میں کوئی تیر سا کُھب جاتا ہے

لُطف اٹھاتے ہیں جو ہم اپنے ہی آزار کے ساتھ

اس طرح ساتھ ہے مجھ راندۂ دنیا کے کوئی

جیسے عیسیٰ کی دعا ہو کسی بیمار کے ساتھ

اُف یہ اجداد کی ناموس کہ جس کے ڈر سے

ہم لپٹ بھی نہیں سکتے تِری دیوار کے ساتھ

عشق کا دل میں بسیرا ہو یہ ممکن ہی نہیں

اس سیہ بخت کی بنتی ہے تو بس دار کے ساتھ

حُسن بھی داد کی حسرت میں فنا ہوتا ہے

اور ازل سے ہے یہی مسئلہ فنکار کے ساتھ

ہم اگر اس بُتِ کافر کی پرستش کرتے

دُرِ ایماں بھی گنواتے دلِ بیکار کے ساتھ

کیا مزا ہو جو مِرے ساتھ روا رکھتے تھے

اب وہی رکھیں رویہ کبھی اغیار کے ساتھ

کعبۂ عشق بچانے کا ہمیں حکم تو ہو

ہم نے تو سنگ اُٹھا رکھے ہیں مِنقار کے ساتھ

عرفی یوں ہی مجھے حسرت نہیں جاں بازی کی

مِرے اجداد کو نسبت تھی کوئی دار کے ساتھ


عرفان عرفی

No comments:

Post a Comment