تن میں جاں، جاں سے جدا بھی کچھ ہے
مرشدی! تجھ سے چھپا بھی کچھ ہے
اس تعلق کی نزاکت کو سمجھ
جو تِرا ہے وہ مِرا بھی کچھ ہے
گنبدِ ذات سے باہر تو نکل
پھر بتا، تیری صدا بھی کچھ ہے
ایک اک کر کے بجھے سارے چراغ
تب لگا ہم کو ہوا بھی کچھ ہے
مست ہم یوں ہی نہیں رہتے ہیں
اس فقیری میں نشہ بھی کچھ ہے
کچھ تو وحشت سے بھرا ہوں میں بھی
اور جنوں خیز ہوا بھی کچھ ہے
ہجر کی رات، تصور میں تُو
حبس کے ساتھ ہوا بھی کچھ ہے
ایک رشتہ جو محبت بھی نہیں
اور محبت سے سوا بھی کچھ ہے
جس طرف چاہے ہوا لے جائے
خشک پتوں کی انا بھی کچھ ہے
پہلے کرنا تھا تمہیں عرضِ طلب
اب مِرے پاس بچا بھی کچھ ہے؟
خورشید طلب
No comments:
Post a Comment