Monday, 24 January 2022

گزر رہی ہے خسارے شمار کرتے ہوئے

 گزر رہی ہے خسارے شمار کرتے ہوئے

وگرنہ پاؤں کہاں تھے غبار کرتے ہوئے

میں ایسے دور سے گزرا کہ پیش تک نہ گئی

میں اس کو بھول گیا انتظار کرتے ہوئے

کمان کھینچ تو بیٹھا میں اک پرندے پر

پھر ایک گرد اٹھی شرمسار کرتے ہوئے

شکوۂ خواب ہی ایسا مِری نگاہ میں تھا

میں آدھا جھڑ گیا صحرا کو پار کرتے ہوئے

تو کیا یہ ترکِ رکوع و سجود کافی نہیں

تو کیا یہ کافی نہیں خود پہ وار کرتے ہوئے

جو آئینہ سی محبت تھی مجھ پہ واری ہوئی

چٹخ کے ٹوٹ گئی زنگ سار کرتے ہوئے

پھر ایک دن تِرے افلاک سے نکل آیا

تعلقات کو میں استوار کرتے ہوئے


عقیل ملک

No comments:

Post a Comment