گزر رہی ہے خسارے شمار کرتے ہوئے
وگرنہ پاؤں کہاں تھے غبار کرتے ہوئے
میں ایسے دور سے گزرا کہ پیش تک نہ گئی
میں اس کو بھول گیا انتظار کرتے ہوئے
کمان کھینچ تو بیٹھا میں اک پرندے پر
پھر ایک گرد اٹھی شرمسار کرتے ہوئے
شکوۂ خواب ہی ایسا مِری نگاہ میں تھا
میں آدھا جھڑ گیا صحرا کو پار کرتے ہوئے
تو کیا یہ ترکِ رکوع و سجود کافی نہیں
تو کیا یہ کافی نہیں خود پہ وار کرتے ہوئے
جو آئینہ سی محبت تھی مجھ پہ واری ہوئی
چٹخ کے ٹوٹ گئی زنگ سار کرتے ہوئے
پھر ایک دن تِرے افلاک سے نکل آیا
تعلقات کو میں استوار کرتے ہوئے
عقیل ملک
No comments:
Post a Comment