دیکھ کر مجھ کو مِری شوخ بڑی ہنستی ہے
مجھ سے اک شعر کی دوری پہ کھڑی ہنستی ہے
خود کو آواز جو دیتا ہوں تِرے لہجے میں
میرے کمرے میں ہر اک چیز پڑی ہنستی ہے
تیرا مہجور تو بس تیری خوشی میں خوش ہے
سرِ مژگان سو اشکوں کی لڑی ہنستی ہے
سوچ تو ربط کے امکان بنانے پہ بضد
اور زنجیر کی ہر ایک کڑی ہنستی ہے
وائے بر حال کہ رحمت بھی کہیں زحمت ہے
صحنِ مفلس میں ٹھہر کر جو جھڑی ہنستی ہے
خود کو رستے میں گرا آتا ہوں عجلت میں شہیر
اور کلائی سے بندھی مجھ پہ گھڑی ہنستی ہے
شہیر تہامی
No comments:
Post a Comment