Friday, 25 February 2022

ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا

 ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا

دیدۂ شوق تماشا ہے تماشا نہ رہا

دل رہا دل میں مگر جوش تمنا نہ رہا

انجمن رہ گئی اور انجمن آرا نہ رہا

ہے وہی طور وہی برق وہی شان جمال

ہاں کوئی آگ سے اب کھیلنے والا نہ رہا

دامن موج بھی ہاتھوں سے چھٹا جاتا ہے

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا نہ رہا

آج وہ سر تِرے قدموں پہ جھکا جاتا ہے

جو حرم میں بھی کبھی ناصیہ فرسا نہ رہا

یک بیک یوں نہ سر بزم اٹھانی تھی نقاب

جلوے بے تاب ہیں اور دیکھنے والا نہ رہا

رہ گئی آنکھ بھی کچھ اشک بہا کر خاموش

یعنی دل قابل اظہار تمنا نہ رہا

دل کہیں تھا کہیں نظریں تھیں خیالات کہیں

میں رہا بزم میں اس طرح کہ گویا نہ رہا

مژدۂ وصل سنا کر بھی اسے دیکھ لیا

تِرا دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہا

یوں تو ہر ایک سے کہتے تھے فسانہ دل کا

اس نے جب پوچھا تو پھر کہنے کا یارا نہ رہا

پھر بھی کچھ دل کو تسلی سی تو ہوتی ہے منیرؔ

گو کبھی منتظر وعدۂ فردا نہ رہا


منیر بھوپالی 

No comments:

Post a Comment