Friday, 1 April 2022

قدرت کی پیش کردہ نشانی سمجھ اسے

 قدرت کی پیش کردہ نشانی سمجھ اِسے

وقتِ وبا ہے، یاد دہانی سمجھ اسے

سینے میں سانس رکنے لگا ہے تو غور کر

مرتی ہوئی زمیں کی کہانی سمجھ اسے

تُو نے محاصروں کا سُنا تھا، جیا نہ تھا

اب گھر میں بیٹھ، اپنی زبانی سمجھ اسے

تیری غزل جو اس کو سناتے ہیں تیرے دوست

اس میں بھی ایک چال ہے جانی! سمجھ اسے

دیکھا ہے اس کو شاہ کے وارث نے دھیان سے

فی الحال جو کنیز ہے، رانی سمجھ اسے

یہ دل ہے اور دل بھی علی کا ہے دوستا

پانی میں آگ، آگ میں پانی سمجھ اسے


علی زریون

No comments:

Post a Comment