Friday, 1 April 2022

ترے بچھڑنے کا دکھ اپنے خاندان کا دکھ

 تِرے بچھڑنے کا دکھ اپنے خاندان کا دُکھ

ہماری ذات کو ہے سارے کاروان کا دکھ

حضور!! آپ کو تو علم ہے حقیقت کا

حضور آپ تو سنتے تھے بے زبان کا دکھ

خموش بیٹھ کے اک دوسرے کو سنتے ہیں

ضعیف پیڑ سمجھتا ہے نوجوان کا دکھ

سفر طویل ہے اور زادِ راہ بھی کم ہے

لگا ہوا ہے مجھے نم زدہ مکان کا دکھ

سفر میں تُو ہے مگر پاؤں تھک رہے ہیں مِرے

تھکا رہا ہے مجھے یوں تِری تھکان کا دکھ

کنیز خاص بنا دی گئی تھی شہزادی

اسے دیا بھی گیا تو اسی کی شان کا دکھ

غریب کے لیے تو دکھ ہی دکھ ہیں دنیا میں

کبھی مکان کا دکھ ہے، کبھی دکان کا دکھ

نہیں ہے کچھ بھی یہاں اس حصار سے باہر

کہیں خموشی کا غم ہے کہیں بیان کا دکھ


حنا عنبرین

No comments:

Post a Comment