گو خانماں خراب ہیں ایک اعتبار سے
ہم پھر بھی لاجواب ہیں ایک اعتبار سے
بخشی گئی ہے ہم کو خلافت جہان کی
گو ہم خیال و خواب ہیں ایک اعتبار سے
چہروں سے آشکار ہے جو جو دلوں میں ہے
ہم سب کھلی کتاب ہیں ایک اعتبار سے
جن سے کسی نے فیض نہ پایا تمام عمر
وہ لوگ اِک سراب ہیں ایک اعتبار سے
یہ نازنین و ماہ جبین و پری جمال
سارے گل و گلاب ہیں ایک اعتبار سے
واہ اس نے اپنے در سے اٹھایا نہیں ہمیں
ہم آج باریاب ہیں ایک اعتبار سے
صحرا کو کوئی چل پڑا کوئی پہاڑ کو
عشاق ہم رکاب ہیں ایک اعتبار سے
پھیلا رہے ہیں ہر طرف انوارِ آگہی
شاعر بھی ماہتاب ہیں ایک اعتبار سے
جو جستجوئے یار میں خود کھو گئے کہیں
ناصر! وہ کامیاب ہیں ایک اعتبار سے
فیض الحسن ناصر
No comments:
Post a Comment