Friday, 1 April 2022

دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

 دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے

ایک بپھرا ہوا دریا ہے مِرے چار طرف

تُو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے

ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات

★آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارہ نکلے★

دیکھتا ہوں میں تِری راہ میں دام حیرت

روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے

اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا

رات کچھ اور بڑھے 🌕چاند دوبارہ نکلے

آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں

بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے

عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر

کوئی دروازہ کھلے، اور نہ دریچہ نکلے


اکرم نقاش

No comments:

Post a Comment