Friday, 1 April 2022

تا ابد ایک ہی چرچا ہو گا

 تا ابد ایک ہی چرچا ہو گا

کوئی ہم سا کوئی تم سا ہو گا

اسی تاریک زمیں کا منظر

چاند پر چاندنی جیسا ہو گا

سورج آیا ہے مِری سمت مگر

دوسری سمت اندھیرا ہو گا

کاش پہلے سے کوئی بتلا دے

کس طرح ذکر ہمارا ہو گا

ایسے بے گانہ نہ سننا لوگو

یہ بھی افسانہ کسی کا ہو گا

وہ نہیں آئے گا اس محفل میں

دور ہی دور سے سنتا ہو گا

آئی بے ساختہ ہر شعر پہ داد

کتنے معنی نہیں سمجھا ہو گا

کون تھا جس نے رکھی تجھ سے امید

ہاں تو وہ شخص مجھی سا ہو گا

کون تھا ابر جو بن کر برسا

ہاں تو وہ تجھ کو ترستا ہو گا

کون تھا جس سے ہوئی طے منزل

ہاں تو پہلے وہ بھٹکتا ہو گا

کون تھا جس سے یہ شعلے بھڑکے

ہاں تو وہ خوب سلگتا ہو گا

تم رہو چپ کہ غزل خواں عالی

نہ برا ہوئے گا نہ اچھا ہو گا


جمیل الدین عالی

No comments:

Post a Comment