تا ابد ایک ہی چرچا ہو گا
کوئی ہم سا کوئی تم سا ہو گا
اسی تاریک زمیں کا منظر
چاند پر چاندنی جیسا ہو گا
سورج آیا ہے مِری سمت مگر
دوسری سمت اندھیرا ہو گا
کاش پہلے سے کوئی بتلا دے
کس طرح ذکر ہمارا ہو گا
ایسے بے گانہ نہ سننا لوگو
یہ بھی افسانہ کسی کا ہو گا
وہ نہیں آئے گا اس محفل میں
دور ہی دور سے سنتا ہو گا
آئی بے ساختہ ہر شعر پہ داد
کتنے معنی نہیں سمجھا ہو گا
کون تھا جس نے رکھی تجھ سے امید
ہاں تو وہ شخص مجھی سا ہو گا
کون تھا ابر جو بن کر برسا
ہاں تو وہ تجھ کو ترستا ہو گا
کون تھا جس سے ہوئی طے منزل
ہاں تو پہلے وہ بھٹکتا ہو گا
کون تھا جس سے یہ شعلے بھڑکے
ہاں تو وہ خوب سلگتا ہو گا
تم رہو چپ کہ غزل خواں عالی
نہ برا ہوئے گا نہ اچھا ہو گا
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment