یقیں
تُو شہر میں نہیں ہے
تو شہرِ جاں کے اندر
عالم ہے زلزلوں کا
وحشت بچھی ہے ہر سُو
آنکھوں کی پتلیوں پہ
یادیں تمہاری آنسو بن کے رکی ہوئی ہیں
اک بھیڑ ہے اگرچہ
آنکھوں کے آگے ہر سُو
خود کو میں دیکھ کتنی تنہا سی لگ رہی تھی
پھر ایکدم سے مجھ کو
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا
برفاب کر گیا ہے تو
سرگوشیوں میں خود کو
میں نے یقیں دلایا
تُو ہے جہاں کہیں بھی
دل کے قریں ہے میرے
آئے گا لوٹ کر تو
میرے ہی بازوؤں میں
تُو شہر میں نہیں ہے
تو شہر جاں کے اندر
عالم ہے زلزلوں کا
ثمینہ سید
No comments:
Post a Comment