ایسے کب کرتا ہے تسلیم وہ حق پر مجھ کو
بھیج کر دیکھتا ہے آگ کے اندر مجھ کو
ڈوب کر ختم نہ کر دوں میں تماشا اس کا
ساتھ چل پڑتا ہے دریا میں بہا کر مجھ کو
اب سمجھ آئی ہے جب کچھ بھی نہیں باقی بچا
کاش آغاز میں لگتی یہی ٹھوکر مجھ کو
ورنہ، لاتا نہیں میں آئینہ خانے میں اسے
بے ضرر لگتا تھا اس ہاتھ میں پتھر مجھ کو
اتنے لوگوں میں کہاں ہوتی ہے دشمن کی شناخت
بھیڑ میں مار گیا ہے کوئی خنجر مجھ کو
نادر عریض
No comments:
Post a Comment