Saturday, 2 April 2022

ایسے کب کرتا ہے تسلیم وہ حق پر مجھ کو

 ایسے کب کرتا ہے تسلیم وہ حق پر مجھ کو

بھیج کر دیکھتا ہے آگ کے اندر مجھ کو

ڈوب کر ختم نہ کر دوں میں تماشا اس کا

ساتھ چل پڑتا ہے دریا میں بہا کر مجھ کو

اب سمجھ آئی ہے جب کچھ بھی نہیں باقی بچا

کاش آغاز میں لگتی  یہی ٹھوکر مجھ کو

ورنہ، لاتا نہیں میں آئینہ خانے میں اسے

بے ضرر لگتا تھا اس ہاتھ میں پتھر مجھ کو

اتنے لوگوں میں کہاں ہوتی ہے دشمن کی شناخت

بھیڑ میں مار گیا ہے کوئی خنجر مجھ کو


نادر عریض

No comments:

Post a Comment