Saturday, 2 April 2022

مشتعل ہو گیا وہ غنچہ دہن دانستہ

 مشتعل ہو گیا وہ غنچہ دہن دانستہ

آ گئی لفظوں میں کیوں اس کے چبھن دانستہ

جب بھی لایا ہے وہ ماتھے پہ شکن دانستہ

یوں لگا جیسے ہوا چاند گہن دانستہ

ٹھیس لگتی ہے انا کو تو برس پڑتے ہیں

لب کشا ہوتے نہیں اہل سخن دانستہ

سربلندی ہمیں منظور تھی حق کی خاطر

اس لیے چوم لیے دار و رسن دانستہ

جتنے بھی اہل سیاست ہیں وطن دشمن ہیں

سب نے پھونکا ہے محبت کا چمن دانستہ

یہ بھی سچ اینٹ کا پتھر سے دیا ہم نے جواب

یہ بھی سچ بیر ہے ان سے نہ جلن دانستہ

اس سے بہتر کہاں اظہار غم دل کرتے

یوں تراشا کیے لفظوں کے بدن دانستہ

اس سے دشمن ہی نہیں موت بھی کترائے گی

جس نے بھی باندھ لیا سر سے کفن دانستہ

شاید اس دور کی تہذیب کو غیرت آئے

ہم نے چھیڑی ہے حکایات کہن دانستہ

جس کو وہ چاہے عطا کر دے یہ وصف تقدیس

کون پاتا ہے غزل کہنے کا فن دانستہ

سہمے سہمے سے ہیں پیڑوں پہ پرندے اے شمس

اس نے گھولی ہے فضاؤں میں گھٹن دانستہ


شمس رمزی

No comments:

Post a Comment