مرے ہوئے لوگ
مرے ہوئے لوگ مل جاتے ہیں
کسی اخبار کے پرانے کاغذ میں
بلیک اینڈ وائٹ فلم کے کسی سین میں
جو اب دیکھی نہیں جاتی
جس میں ہیرو کہتا ہے
"میں کبھی تمہیں چھوڑ کے نہیں جاؤں گا"
وہ سین میں اب صاف نظر نہیں آ رہے ہوتے
اس سین سے اب وہ مٹ رہے ہوتے ہیں
وہ نظر آتے ہیں بھولے بسرے گیتوں میں
خوابوں میں
ان خوابوں سے جڑی نیندوں میں
پرانی تصویروں میں
جو دیوار سے ٹنگی ہیں
اور انتظار میں ہیں
ان روحوں کی طرح
جنہیں دوزخ یا جنت میں سے
ابھی کچھ عطا نہیں ہوا
مرے ہوئے لوگ مل جاتے ہیں
پرانی البموں میں
جھاڑ پونچھ کرتے ہاتھ لگی تحریروں میں
بھولی ہوئی باتوں میں
ان باتوں کے حوالوں میں
جب کوئی کہتا؛
"ابو یہ کام یوں کیا کرتے تھے"
مرے ہوئے لوگ ملتے ہیں
کبھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے
جیون کی کتھا سنتے ہوئے
مرے ہوے لوگ ہیں
گزرے پانی کے پہلے ریلے کی طرح
پہلا ریلا ابھی گزرا ہے
وہ ہم سے زیادہ دور نہیں ہیں
میں نے ابھی اس ریلے کو بلندی سے گرتے دیکھا ہے
پھر وہ ہمیں ملتے ہیں کسی کے جنازے پر
جب ہم میت کے لیے دعا مانگتے ہیں
وہ ہاتھوں کے پاتال سے ہمیں دیکھتے ہیں
کسی پرانے شو کے سٹوڈیو میں بیٹھے
وہ ایک اداس گیت پہ تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں
مَرے ہوئے لوگ زیادہ دور نہیں جاتے
وہ ہمارے جانے تک یہی رہیں گے
طاہر راجپوت
No comments:
Post a Comment