Saturday, 2 April 2022

مرے ہوئے لوگ مل جاتے ہیں کسی اخبار کے پرانے کاغذ میں

 مرے ہوئے لوگ


مرے ہوئے لوگ مل جاتے ہیں

کسی اخبار کے پرانے کاغذ میں 

بلیک اینڈ وائٹ فلم کے کسی سین میں 

جو اب دیکھی نہیں جاتی 

جس میں ہیرو کہتا ہے

"میں کبھی تمہیں چھوڑ کے نہیں جاؤں گا"

وہ سین میں اب صاف نظر نہیں آ رہے ہوتے

اس سین سے اب وہ مٹ رہے ہوتے ہیں 

وہ نظر آتے ہیں بھولے بسرے گیتوں میں 

خوابوں میں

ان خوابوں سے جڑی نیندوں میں 

پرانی تصویروں میں

جو دیوار سے ٹنگی ہیں

اور انتظار میں ہیں 

ان روحوں کی طرح 

جنہیں دوزخ یا جنت میں سے 

ابھی کچھ عطا نہیں ہوا 

مرے ہوئے لوگ مل جاتے ہیں

پرانی البموں میں

جھاڑ پونچھ کرتے ہاتھ لگی تحریروں میں 

بھولی ہوئی باتوں میں

ان باتوں کے حوالوں میں

جب کوئی کہتا؛

 "ابو یہ کام یوں کیا کرتے تھے" 

مرے ہوئے لوگ ملتے ہیں 

کبھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے 

جیون کی کتھا سنتے ہوئے 

مرے ہوے لوگ ہیں 

گزرے پانی کے پہلے ریلے کی طرح 

پہلا ریلا ابھی گزرا ہے 

وہ ہم سے زیادہ دور نہیں ہیں

میں نے ابھی اس ریلے کو بلندی سے گرتے دیکھا ہے 

پھر وہ ہمیں ملتے ہیں کسی کے جنازے پر 

جب ہم میت کے لیے دعا مانگتے ہیں 

وہ ہاتھوں کے پاتال سے ہمیں دیکھتے ہیں 

کسی پرانے شو کے سٹوڈیو میں بیٹھے

وہ ایک اداس گیت پہ تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں 

مَرے ہوئے لوگ زیادہ دور نہیں جاتے

 وہ ہمارے جانے تک یہی رہیں گے


طاہر راجپوت

No comments:

Post a Comment