Saturday, 2 April 2022

اب یہ عالم ہے کہ جس شے پہ نظر جاتی ہے

 اب یہ عالم ہے کہ جس شے پہ نظر جاتی ہے

ہو بہ ہو آپ کی تصویر نظر آتی ہے

خود کو تاریخ کسی وقت جو دہراتی ہے

میرے حالات پہ دنیا کو ہنسا جاتی ہے

یادِ ایامِ بہاراں بھی نہیں وجہِ سکوں

اب تو تزئینِ قفس ہی مجھے بہلاتی ہے

برق بن بن کے گری ہے مِرے دل پر اکثر

وہ تجلّی جو سرِ طور نظر آتی ہے

آج کچھ ان کی توجہ میں کمی پاتا ہوں

زندگی موت سے دو چار ہوئی جاتی ہے

دل بھر آتا ہے مِرا دیکھ کے نَم آنکھ کوئی

اپنے رونے پہ تو اب مجھ کو ہنسی آتی ہے

میں وہ اک ننگِ زمانہ ہوں ازل ہی سے رئیس

زندگی ہے کہ مِرے نام سے شرماتی ہے


رئیس نیازی

No comments:

Post a Comment