منافقت کی سند ہے ہمارے یار کے پاس
کہ جیسے قبر بنائی گئی ہو غار کے پاس
رقیب اور پھر اس پر غریب عاشق بھی
یہ گھوڑا گاڑی کھڑی کر دی کس نے کار کے پاس
دوائی کھانے کا مقصد تو ایک یہ بھی ہے
مِری گھٹن کا مداوا نہیں بخار کے پاس
ہمارے دور کے لوگوں کا خوف پختہ تھا
سو گیلا تولیا رکھتے نہیں تھے تار کے پاس
ابھی تو ہم نے دعا کو بھی ہاتھ اٹھائے نہیں
ہمارے قصے پہنچنے لگے ہیں دار کے پاس
علی زیرک
No comments:
Post a Comment