Thursday, 21 April 2022

درد پھر سے نیا نہیں کرنا

 درد پھر سے نیا نہیں کرنا

زخم پھر سے ہرا نہیں کرنا

فیصلہ کر لیا ہے کچھ بھی ہو

اب تِرا سامنا نہیں کرنا

اس کی ضد ہے کہ اس کو یاد کروں

اس سے کہہ دو کہ جا نہیں کرنا

انسیت ہو گئی ہے اشکوں سے

ہجر سے اب رہا نہیں کرنا

سو طرح سے گماں پکاریں گے

اُس گلی میں رکا نہیں کرنا

عشق تھا رائیگاں تو ہونا تھا

خود پہ سانسیں سزا نہیں کرنا

دل بلندی سے گر کے ٹوٹے گا

عشق بے انتہا نہیں کرنا


ظل ہما

No comments:

Post a Comment