درد پھر سے نیا نہیں کرنا
زخم پھر سے ہرا نہیں کرنا
فیصلہ کر لیا ہے کچھ بھی ہو
اب تِرا سامنا نہیں کرنا
اس کی ضد ہے کہ اس کو یاد کروں
اس سے کہہ دو کہ جا نہیں کرنا
انسیت ہو گئی ہے اشکوں سے
ہجر سے اب رہا نہیں کرنا
سو طرح سے گماں پکاریں گے
اُس گلی میں رکا نہیں کرنا
عشق تھا رائیگاں تو ہونا تھا
خود پہ سانسیں سزا نہیں کرنا
دل بلندی سے گر کے ٹوٹے گا
عشق بے انتہا نہیں کرنا
ظل ہما
No comments:
Post a Comment